شہر کے مصروف ترین اڈے پر
بسیں۔۔استری کئے ہوئے کپڑوں کی طرح پیک ہو رہی تھیں
مجھے بس کےانتظار کا عارضہ
لاحق تھا۔۔ دفتر جانے کے لئے۔۔ اچانک ایک مترنم آواز بن گوش سے ٹکرا کر کان کے ڈرم
تک جا پہنچی۔۔ سنو۔۔!۔ مجھے گھر تک چھوڑ دو گے۔۔؟ آفر سن کردیپک راگ کی طرح دماغ میں
اچانک دئیے ٹمٹمانےلگے۔۔ دماغ میں ٹن ٹن ہو رہی تھی۔جسیے کسی اناڑی نے راگ درباری کانہڑہ
بجانے کے دوران ہارمونیم پر پہلا، دوسرا اور تیسرا کالا اکھٹے بجا دئیے ہوں۔ٹن ٹن ٹن۔۔۔
خیال کی گائیکی کے دوران
ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے۔۔۔جب سامعین کو اندازہ نہیں ہوتا کہ گلوکار کس راگ میں خیال
چھیڑےگا۔۔
پھر۔۔۔گلوکار جو کچھ اپنے
گلے سے اُگلتا ہے۔۔۔ وہی سُر طبلے سے نکلتے ہیں۔۔یہ تال میل بس اتنا سا ہی رسیلا ہوتا
ہے کہ صرف سُریلے کانوں کو بھلا لگتا ہے
ٹھمری کلاسیکل کی زنانہ صنف
ہےجسےخیال کی طرح استھائی اور انترہ سے آراستہ کیاجاتا ہے۔۔ٹھمری ارادے کے اظہار کا
ذریعہ بھی ہے۔
مجھے گھر تک چھوڑ دو گے۔۔۔
یہ آفر خیال کی گائیکی کی طرح اچانک چِھڑی تھی۔۔یہ الگ بات ہے کہ دماغ میں ٹن ٹن ہو
رہی تھی۔ مجھے یقینِ غالب ہےکہ یہ انجانے سُر۔۔ٹھمری میں ہی لگے تھے۔۔ یوں لگا جیسے
بس اڈے پر کھڑے باقی تمام لوگ کورس میں سنگت کر رہے ہیں۔۔تبھی تو بات تال میل تک پہنچی
۔۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ مجھے تو خود بس کا انتظار تھا۔۔!۔۔ لفٹ۔۔؟
زبان ابھی تالو سے لگی ہوئی
تھی۔۔۔ ہونٹ سوال کے لئے سُکڑے ہوئے تھے اور آنکھیں محو مجسم تھیں
ٹھمری پھر چِھڑی ۔۔۔ پیدل
ہی ڈراپ کر دو۔۔۔!
ڈراپ کی یہ نئی اصطلاح تھی
نئی آفر کا جواب پہلے سوال
سے بھی مشکل تھا۔۔۔
دل مُضطر کو حوصلے کی بیساکھیاں
تھمائیں۔۔ ٹانگوں کو پورے بدن کی انرجی جوڑ کر دی
منہ سے بمشکل ہاں نکلا۔۔۔
ہم پیدل ہی ہو لئے۔۔!
ٹھمری کے جواب میں۔۔۔میرے
پاس دادرا، درباری، بھیروی، پیلو، دیپک، میگھ ملہار اور خالص مردانہ راگ دھرپد ۔۔سب
کچھ تھا۔۔۔ عمرو عیار کی زنبیل نے اچانک میرے سامنے تان سین کھول کر رکھ دیا تھا۔
ایویں۔۔۔بے وقت کی راگنی
کی طرح۔۔۔
عہد شباب میں پہلی بار ڈراپ
کرنے کی آفر ملی تھی
کراچی کمپنی سے ایف ٹین تک
تب عاشقی فلم کا گانا۔۔۔بس
ایک صنم چاہیے عاشقی کے لئے ۔۔۔ کافی ہٹ تھا
میرے شعور کی ڈسک پر یہی
گانا کبھی ہائی نوٹ اور کبھی نچلے سُر میں مسلسل بج رہا تھا۔۔۔ اناڑی کے ہارمونیم پر
چھیڑے جانے والے کالوں کی طرح ۔۔۔ اور ۔۔۔ میں نے گانے کی نسبت سے اُس کا نام صنم رکھ
لیا
کراچی کمپنی سے ایف ٹین تک
کی گزرگاہوں پر ہم نے ماڈرن محبت کے کئی سنگ میل پیچھے چھوڑے ۔صنم کو میں نے کئی بار
ڈراپ کیا ۔ اچانک ایک روز اس نے مجھے‘‘ڈراپ’’ کر دیا
صنم تو بے وفا کے نام سے
مشہور ہو جائے
بانو قدسیہ کہتی ہیں ۔۔۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔۔۔محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے۔۔ہمیشہ
دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے۔۔ ۔۔ محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی
ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے۔۔۔راجہ گدھ
عمرو عیار اردو افسانوں کا
جاسوسی کردار ہے جس کے پاس ہر غیر معمولی مسلے کا حل آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔۔۔ زنبیل
میں ۔۔۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ہے۔۔ تو پھر محبت کرنا۔۔ جاسوسی کرنے جیسا
ہے۔۔ہم سے تو زندگی بھر ایک بار ہی جاسوسی ہو سکی۔۔ کراچی کمپنی سے ایف 10 تک۔۔اور
اس مسلے کا حل زنبیل میں نہیں تھا۔۔۔البتہ صنم کی محبت خالصتا سفید لباس میں ملبوس
عمرو عیار تھی۔۔ وہ ہالی وڈ ایکٹرس انجلینا جولی کی فلمThe Tourist کی طرح پکی جاسوس تھی۔دُھن
کی پکی۔اپنے ٹارگٹ پر فوکس رکھنے والی۔۔۔میں بس کا مسافر تھا بس آبھی چکی تھی لیکن۔۔۔
ایک روز راگ پیلو کے پہر صنم کار پر چڑھ گئی۔۔
’’راگ پیلو کا تاثر انتہائی کرب انگیز ہے۔بس یوں
سمجھئیے جیسے ایک زخمی کونج اپنے ڈار سے بچھڑ کر کھلے آسمان پر کرلاتی پھر رہی ہو۔
اپنے ڈار سے جا ملنے کی ساری امیدیں ایک ایک کر کے ختم ہو چکی ہوں اور اسے نہ راہ کی
خبر ہو نہ منزل کی! ساتھیوں سے دُور۔۔ان کی یاد میں کرلاتی ہوئی کونج ہی پیلو راگ ہے۔‘‘
ماسٹر عنائیت کی ترتیب دی
ہوئی دھنوں پر ۔۔۔اقبال بانو نے راگ پیلو میں ایک کلام گایا تھا۔سنگیت کار قتیل شفائی
تھے
الفت کی نئ منزل کو چلا،
تو باہیں ڈال کہ باہوں میں دل توڑنے والے دیکھ کہ چل، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔۔
یہ راگ پیلو ہی ہے۔۔۔
پیلو دن کے تیسرےپہر گایا جانے والا راگ ہے۔۔۔ اور میری نوکری بھی پیلو
کی طرح تھی۔۔تیسرے پہر شروع ہونے والی۔۔۔اتفاقا۔۔۔ صنم اور میری پہلی ملاقات کا پہر
بھی پیلو ہی تھا۔ تب میں بھیرویں (صبح کا راگ ) اور راگیشری (رات کا راگ) کی بندشوں
سے آزاد ہو کر دن بھر دیپک راگ ہی الاپتا۔۔۔ لیکن سُر ابھی کچے تھے۔۔۔ تان سین سے
ڈائریکٹ فیض لینے کی خواہش دل میں مچلتی رہتی تھی۔۔۔ موسیقار اعظم تان سین نے درباری
اور شام کلیان جیسے راگوں کو عروج تک پہنچایا۔۔۔ یہ دونوں راگ اُس موسیقار اعظم کی
پہچان بنے۔۔ میرا من بھی مچلتا تھا کہ تان سین سے منسوب درباری اور کلیان کی طرح۔۔۔صنم
کو میری نسبت سے جانا جائے ۔۔ لیکن گھنگھرو ٹوٹ گئے ۔۔۔ موسیقاروں کے نزدیک دن کے ہر
پہر کے راگ الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ندیم ہاشم کے نزدیک تو محبت کے پہر بھی الگ الگ ہوتے
ہیں ۔۔ وہ اپنے ناول خدا اور محبت میں لکھتے ہیں۔۔۔
’’محبت بھی انسان پر کسی دن کے پہروں کی طرح وارد
ہوتی ہے۔محبت کا پہلا پہر ہمیشہ چبھن، تشنگی اور شدید پیاس لےکر آتا ہے۔ یہ وہ دور
ہوتا ہے جب محبوب آپ سے دور ہوتا ہے۔۔یک طرفہ محبت کی یہ تڑپ ہر لمحہ کانٹوں پر چلنے
کا احساس دلاتی ہے۔۔۔پھر اظہار ہو جاتا ہےاور اگر اظہارِ قبولیت کا شرف بھی پالے تو
محبت کا دوسرا پہر شروع ہوتا ہے۔۔۔تب تپتی دھوپ میں بھی ٹھنڈک ملتی ہے اور جلتا صحرا
بھی نخلستان بن جاتا ہے۔۔۔ محبت کے تیسرے پہر میں پہلے پہر سے بھی زیادہ شدید تشنگی،
شدید پیاس اور بے چینی ہوتی ہے۔۔۔تیسرا پہر گزرنے کے بعد انجام وہی ہوتا ہے جو کسی
بھی بھرپور دن کا تینوں پہر گزرنے کے بعد ہو سکتا ہے۔۔۔ یعنی شام۔۔۔ تین پہروں کے بعد
محبت کی بھی شام ہو جاتی ہے۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔ ٹھہری ہوئی اور ساکت سی اک خوبصورت شام۔۔۔۔
محبت کی شام‘‘
صنم نے محبت کا پہلا پہر
آنے ہی نہیں دیا۔۔ ڈائریکٹ دوسرا۔۔۔ پھر یہ پہر اچانک تیسرے میں بدل گیا۔۔ خوبصورت
شام آئی ہی نہیں۔۔۔ ڈائریکٹ اماوس کی رات۔۔۔ دیپک گاتے گاتے سُر جاکر راگیشری پر پکے
ہوئے۔۔۔ لیکن آنکھیں تب تک راگ میگھ و ملہار (بارشی راگ) گا رہی تھیں۔۔
صنم تو بے وفا کے نام سے
مشہور ہو جائے
Sir, kamal kr diya aap ny..............
جواب دیںحذف کریںkisi blog/ afsaney ya aap beeti main music ki istalahat ka is sy behtar istamal nhi ho sakta.....................
Dear Muhammad Amin ap ki hosla afzai ka shukriya .... ik effort ki thi ap k feed back say ehsas hoa kuch acha likha gya hy
حذف کریں