جمعہ، 13 فروری، 2015

ویلنٹائن ڈے رانگ نمبر ہے۔۔۔۔!

محبت ہمارے من کا وہ پودا ہے جس کی پنیری ازخود پھوٹتی ہے۔یہ پودا اعتماد کی آبیاری سے پنپتا ہے اور جب بڑھ پھول جاتا ہے تو انداز ہوتا ہے کہ من میں سروُ اُگا لیا ہے۔جس کی چھاوں ہوتی ہے اور نہ ہی پھل۔۔ البتہ خار ضرور ہوتے ہیں۔۔ ۔ساون کے اندھے کو چونکہ ہر طرف ہرا ہی سوجھتا ہے تبھی تو من کا جنا سرو بھی بھلا لگتا ہے۔۔ سرو قد عاشق جیسا۔۔ آسوں، امیدوں اور میلاپ کی چھوٹی چھوٹی گوڈی کرکے ہم اسے ہرا بھرا رکھتے ہیں۔۔ بد اعتمادی، عدم برداشت اور رقیب کا دکھ عشق کو اکثر ادھورا چھڑوا دیتے ہیں۔۔بد اعتمادی تو پورا زہر ہے۔۔ پودے کو جھاڑی میں بدل ڈالنے والا۔۔۔ زہر من میں ہو تو تن میں بھی سرائیت کر جاتا ہے اور پھر زبان بھی زہر ہی اگلتی ہے۔۔۔لیکن پیار، محبت اور عشق کیا ہوتا ہے اس کی تشریح خاصا مشکل کام ہے۔۔۔کون جانے محبوب کو پالینا عشق ہے یا اسےکھو دینا معراج عشق۔ ابتدائے عشق میں ہی بدہضمی کے ڈکار کی طرح محبوب کی یاد بار بار آتی ہے۔انتہائے عشق میں ساتھ مروڑ بھی اٹھتے ہیں۔کیفیت السر جیسی ہوجاتی ہے۔۔۔ انسان خود کو کھو دیتا ہے فنا فی المحبوب۔۔۔ بقول انور شعور

اچھا خاصا بیٹھے بٹھائے گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ‘‘ہرانسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کرmidlife کےcrisis اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے-اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجئے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے اور عمل میں ناپختگی کا ثبوت دیتا ہے۔’’
لیکن مجھے لگتا ہے کہ teen age میں ہی انسان سے بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں اور یہ غلطیاں کئی بار گہرے زخم کے چھلکے کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔دبانے سے ٹیس اور کسک کے ساتھ مزا بھی آتا ہے۔۔۔محبت ایسی ہی غلطی ہے۔۔۔زخم کو بار بار ہرا کرنے اور تازہ رکھنے کو جی مچلتا ہے۔۔۔پے در پے محبت۔۔۔
محبت برسا دینا تو ساون آیا ھے تیرے اور میرے ملنے کا موسم آیا ھے
محبت کرنا شعوری عمل ہے یا محبت کا ہوجانا فطری صلاحیت۔۔۔کچھ پتہ نہیں۔۔۔اس کا موسم ہوتا ہے نہ وقت۔۔۔۔ہاں محبت موسمی ہوسکتی ہے۔۔۔اسے قید بھی نہیں رکھا جا سکتا محبت آزاد ہوتی ہے۔۔۔شُتر بے مہار۔۔۔منہ پھٹ، دبنگ، بے پرواہ ، بے حس اور خود غرض محبت۔۔۔محبت کا کوئی دن مقرر کیا جا سکتا ہے اور نہ لمحہ ۔۔۔ہاں اظہار محبت کا دن اور لمحے تلاش کئے جاسکتے ہیں۔۔لیکن محبت ملتی کب ہے۔۔؟۔۔۔خؒود غرض۔۔۔یہ چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو بیدار کرتی ہے۔۔۔بقول علامہ اقبال
تیرے عشق کی انتہاچاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
کہتے ہیں کہ خالص شہد، سُچا دودھ اور سچاعشق مشکل سے ملتے ہیں۔ ۔۔عاشق مکھیوں کے جتھے ہوتے ہیں۔۔پیچھے پڑ جانے والے۔۔۔یہ خود ہی چِھڑ جاتے ہیں۔لاکھ جتن کرو، ٹوٹکے آزماو پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔ ۔پیار اور شہد۔۔۔ دونوں میٹھے تو ہوتے ہیں لیکن تاثیر گرم۔۔۔پھولوں کی خوشبو شہد کا را میٹریل ہے۔۔جب تک مکھی چوس نہیں لیتی شہید نہیں بنتا۔شہروں میں چھتے انار کلی اور گرلز کالجز کے پاس نظر آتے ہیں۔۔۔شہد کے متلاشی
لڑکی اپنے محبوب سے:جب میری یاد آتی ہے تو کیا کرتے ہو لڑکا: میں تمہاری پسندیدہ چاکلیٹ کھا لیتا ہوں لڑکا: اور تم کیا کرتی ہو۔۔۔؟ لڑکی:میں گولڈ لیف کے دو سگریٹ پی لیتی ہوں
محبت ایسی ہی ہوگئی ہے۔۔۔۔سادہ سگریٹ اور کیڈبری چاکلیٹ والی۔۔۔چاکلیٹ ویلنٹائن ڈے کا اہم تحفہ ہیں۔
عشاق14 فروری کو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔۔ویلنٹائن ڈے یعنی یوم محبت۔۔۔جانے وہ کون سے کُوڑھ مغز تھے جنہوں نے ویلنٹائن ڈے کا ترجمہ یوم محبت کیا۔۔۔؟۔۔ویلنٹائن ڈے تو ون ڈے ہو سکتا ہے لیکن محبت تو زندگی بھرکا ساتھ ہے۔۔۔ آس، امید سے بھرپور۔۔!
ویلنٹائن ڈے پر لڑکی نے دوکاندار سے پوچھا
لڑکی: آپ کے پاس ایسا کارڈ ہے جس پر لکھا ہو ‘‘میں تم سے اور صرف تم سے پیار کرتی ہوں’’ دوکاندار: جی ہے ۔۔ لڑکی: پلیز دو درجن پیک کردیں۔۔۔
‘‘مجھے صرف تم سے پیار ہے’’والے دو درجن کارڈ کئی عاشق خریدتے ہوں گے۔۔۔ مصنوعی عاشق۔۔چینی والے شہد کی طرح۔۔ملاوٹی پیار۔۔عاشق بھی کیا کریں ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کسی پر آشکار ہی نہیں۔۔۔
Google کے مطابق قدیم روم میں بت پرستی عام تھی۔ 17سو سال قبل رومیوں نے پوپ ویلنٹائن کو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے پر پھانسی دے دی تھی لیکن جب خود رومی عیسائی بنے تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کی سزائے موت کے دن کو یوم شہید محبت کہہ کر اپنی عید بنالی۔
کچھ تو کہتے ہیں ویلنٹائں ڈےکا آغاز 15ویں صدی عیسوی میں ہوا جب یورپ“نشاہ ثانیہ” کے عمل سے گزر رہا تھا۔کلیسا کے اعتقادات جامد تھے۔۔ ۔پادریوں کے سخت روئیے کے باعث مذہب کا ہر عمل دقیانوسیت کی علامت بن گیا تھا۔تب لادینیت کے علمبرداروں نے شادی بیاہ کے روایتی تصور کو بدلنے اور خاندانی نظام کو کمزور کرنے کے لئے “آزاد ہوس پرستی” کے تہوار کا احیاء کیا۔۔۔ویلٹائن ڈے کے عنوان سے۔فرانس کی شہزادی“پرنسس آف ایزابیل” نے اسے تحریک بنایا۔۔“محبوب کوخطوط لکھنے” کی رسم نے جنم لیا۔۔یہی خط بعد میں ویلٹائن کارڈ بن گیا۔۔۔ یوں آزاد جنسی تعلقات کا فروغ اور شرم و حیا کا خاتمہ ہوا۔ یہ دن اتنا اہم ہوتا تو دو صدیوں تک مشرق پرقابض رہنے والے یورپ نے مقبوضہ ممالک میں ویلنٹائن ڈےکیوں نہیں منایا۔تاریخ 20ویں صدی کے اختتام تک دنیا کے کئی ممالک میں ویلنٹائن ڈے کی گواہی نہیں دے رہی۔۔۔
میں انتہائی ایمانداری سے سمجھتا ہوں ویلنٹائن ڈے امت مسلمہ کے خلاف گہری سازش ہے۔۔۔ اسلام کی عالمی پزیرائی روکنے کی سازش۔ ۔۔کیمونزم کی شکست کے بعد اسلام سے خوفزدہ مغرب کی سازش۔۔یہی تہذیبی تصادم کا نظریہ ہے۔اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز عفت،عصمت، پاکدامنی،حیا اور خاندانی نظام ہے۔۔مغربی تہذیب مذہبی بیزاری، بےحیائی، عریانیت اور عصمت فروشی پر مبنی ہے۔ہماری داڑھی اور حجاب ان کا مذاق ہے۔جہاد کو دہشت گردی اور شریعت کو انتہاپسندی کہاجارہا ہے۔۔ویلنٹائن ڈے اسی جنگ کا ہتیھار ہے۔اورہم گرل فرینڈ وبوائے فرینڈ کی تہذیب اپنا بیٹھے ہیں۔
دُکھ بات پتہ کیا ہے۔۔۔ ہم اس تہذیب میں گوڈے گوڈے جکڑے گئے ہیں۔۔۔بس یوں سمجھ لیں اگر کسی کے پاس پانچ موبائل فون سم ہیں تو اس کے پانچ عشق چل رہے ہیں۔۔۔محبت ان کا پیشہ ہے۔۔۔اور انہیں پیشے سے محبت ہوگئی ہے
لڑکی: میں جب بھی میں تمہیں فون کرتی ہوں تو تم shave کرتے ہو
لڑکا: ہاں تو۔۔۔؟ لڑکی:تم دن میں کتنے شیو کرتے ہو۔۔؟ لڑکا: 50/60 لڑکی: تم پاگل ہو؟ لڑکا:نہیں میں نائی ہوں
کہتے ہیں ایک ہی کام مسلسل کرنے والابندہ مست ہوتا ہے۔۔۔اگر وہ مست نہیں تو..نائی ضرور ہوگا۔۔۔ہرناکام عشق کے بعد نئی شیو کرنے والا۔۔۔آج کل کے عاشق دہریے ہیں۔۔۔۔پرستش کے لئے نئے بتوں اورخداوں کےمتلاشی۔۔۔تنہائی کے دلدادہ، معاشرہ بیزار، عصمت کے لٹیرے، تہذیب کے راہ زن، اخلاقیات کے دشمن، بے راہ روی کے شوقین۔۔۔۔ویلنٹائن ڈے ٹوٹلی رانگ نمبر ہے۔۔۔
ویلنٹائن ڈے پر ایک لڑکی نے لڑکے پوچھا
جان: تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو۔۔۔؟
لڑکا:جانم جتنا تم مجھ سے کرتی ہو۔۔۔؟
لڑکی:پھر ٹھیک ہے مجھے لگا تھا تم سچا پیار کرتے ہو
جان اور جانم سمجھتے ہیں سچا پیار۔۔۔پیار کی خالص قسم ہے۔ ۔سادہ پیار رانگ نمبر ہے۔۔تپسوی مہاراج کی طرح جھوٹا۔ ہاتھوں سے تراش کر پرستش کے لئے بت بنوانے والا رانگ نمبر۔
پی کے کا ہیرو عامر خان۔۔۔خلائی مخلوق ہے اور کسی دوسری دنیا کی مخلوق۔۔۔وہ تحقیق کے لئے ہمارے گولے (زمین) پر آتا ہے۔ لیکن اس کا ریموٹ کنٹرول چوری ہوجاتا ہے۔ریموٹوا کی تلاش اسے دہلی لے آتی ہے۔۔۔منفرد شکل،انوکھے روئیے اور اچھوتے سوال ۔۔۔دہلی والے سمجھتے ہیں کہ وہ شراب کے نشے میں ہے اور اُسے’’پی کے‘‘ بلانے لگتے ہیں۔ وہ دوسروں کا ہاتھ پکڑ کر ان کا مزاج، سوچ، لائف ہسٹری اور کیفیت جان لیتا ہے۔ان کے اہم واقعات حقائق سمیت اپنے اندر ٹرانسفر مار لیتا ہے۔اسی دوران خبرکی متلاشی ٹی وی جرنلسٹ جگو۔۔۔اور پی کے اتفاقا ملتے ہیں۔۔یہ ملاقات پہلے دوستی اور بعد میں یک طرفہ پیار میں بدل جاتی ہے۔۔۔۔ آخرکار اُسے اپنا ریموٹ ایک مذہبی پیشوا۔۔تپسوی مہاراج سے مل جاتا ہے۔وہ مہاراج کے جھوٹ کا بھانڈا پھوڑتا ہے اور مسلمانوں کو سچا ثابت کرکے اپنے گولے پر واپس لوٹ جاتا ہے۔۔۔
ویلنٹائن ڈے منانے والے بھی کسی اور گولے کی مخلوق ہیں۔۔ہمارا تہذیب خراب کرنے یہاں پہنچے ہیں۔۔ان کے ریموٹ گم ہوگئے ہیں۔ ۔۔یہ تہذیبی لٹیرے اتنی بڑی تعداد میں آئے ہیں کہ گولا (زمین) انہی کا لگنے لگا ہے۔۔انہیں ہر لڑکی جگو دِکھتی ہے۔۔۔یہ ہرجگو کا ہاتھ پکڑ کر ڈیٹا اپنے اندر ٹرانسفر مارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔۔۔ یہ توجھوٹے عشق کو سچ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔۔۔انہیں جگو کا سرفراز بہت دیر بعد دکھتا ہے۔۔۔پھر یہ کیسٹوں کے ٹرنک بھرتے ہیں اور نئی جگو ڈھونڈھنے لگتےہیں۔۔تو صاحبو۔۔!کوشش کرو، تدبیر لڑاو، فارمولہ بناو یا حُجت کرو ان کا ریموٹوا تلاش کرو۔۔اڑن تشتری بلاؤ۔۔انہیں گولے پر واپس بھجواؤ۔کیونکہ ویلنٹائن ڈے رانگ نمبر ہے۔۔رائٹ نمبر صرف اسلام ہے۔۔دین حنیف۔۔۔محبت کا دین۔۔پیار،امن و آشتی کا مذاہب۔۔۔ بھوکوں، بے کسوں، بے سہارا، یتیموں، مسکینوں کی عزت کا امین۔۔۔حیا،عصمت، پاکدامنی اور عفت کا رکھوالا۔۔۔رائٹ نمبر۔۔۔کیونکہ ویلنٹائن ڈے دل کا نہیں دین کا معاملہ ہے۔۔

1 تبصرہ:

  1. Ηеllo to every body, іt'ѕ mу first ǥo to seе of thiѕ blog; this weblog carries amazing ɑnd in facxt excellent data in favor of readers.


    Here is mƴ blog: tert htyt

    جواب دیںحذف کریں