ہفتہ، 28 فروری، 2015

انسان ولد جانور۔۔۔۔ ڈارون لاہور میں


چارلس رابٹ ڈارون 1809 میں برطانیہ میں پیدا ہوا اور اپنے نظریہ ارتقا (Evolutionary theory) کی وجہ سے دنیا بھرمیں مشہور۔۔۔ اور مسلم دنیا میں بدنام ہوا۔۔ڈارون نے نوع انسانی کے ارتقا کا یہ باطل نظریہ 50 سال کی عمر میں تقر یبا1859 میں پیش کیا۔
ڈارون کہتا ہے کہ تمام جاندار اپنے ارد گرد کے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے اپنی ہیت کوبدلتے رہتے ہیں۔انسان بن مانس کی نسل سے تھا۔ماحولیاتی تغیر کی وجہ سے ہیت بدل کر انسان ویسا ہوگیا۔۔۔جیسا آج ہے۔ چمپینزی جیسے چوپائے کی طرح۔۔۔۔دو پیروں پر انسان کھڑا ہو گیا۔۔۔ کیونکہ یہ تغیر اُس زمانے اور اُس ماحول میں بقاء کے لیے ضروری تھا۔
ڈارون کے ہم خیال مادہ پرستوں کا خیال ہے کہ زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی۔پھرساحل پر ہی نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں۔ نباتاتی تغیر نے حیوانات پیدا کئے اور یہی حیوانات۔۔۔غیرانسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج طے کرکے مرتبہ انسانیت پر۔۔۔تک پہنچے یعنی چمینزی۔۔بندر۔۔۔انسان۔۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ پہلی بار ارسطو نے پیش کیا تھا۔مسلمان مفکر ابن خلدون نے بھی جزوی طور پر اسی نظریئے کی حمایت کی تھی۔

جمعہ، 13 فروری، 2015

ویلنٹائن ڈے رانگ نمبر ہے۔۔۔۔!

محبت ہمارے من کا وہ پودا ہے جس کی پنیری ازخود پھوٹتی ہے۔یہ پودا اعتماد کی آبیاری سے پنپتا ہے اور جب بڑھ پھول جاتا ہے تو انداز ہوتا ہے کہ من میں سروُ اُگا لیا ہے۔جس کی چھاوں ہوتی ہے اور نہ ہی پھل۔۔ البتہ خار ضرور ہوتے ہیں۔۔ ۔ساون کے اندھے کو چونکہ ہر طرف ہرا ہی سوجھتا ہے تبھی تو من کا جنا سرو بھی بھلا لگتا ہے۔۔ سرو قد عاشق جیسا۔۔ آسوں، امیدوں اور میلاپ کی چھوٹی چھوٹی گوڈی کرکے ہم اسے ہرا بھرا رکھتے ہیں۔۔ بد اعتمادی، عدم برداشت اور رقیب کا دکھ عشق کو اکثر ادھورا چھڑوا دیتے ہیں۔۔بد اعتمادی تو پورا زہر ہے۔۔ پودے کو جھاڑی میں بدل ڈالنے والا۔۔۔ زہر من میں ہو تو تن میں بھی سرائیت کر جاتا ہے اور پھر زبان بھی زہر ہی اگلتی ہے۔۔۔لیکن پیار، محبت اور عشق کیا ہوتا ہے اس کی تشریح خاصا مشکل کام ہے۔۔۔کون جانے محبوب کو پالینا عشق ہے یا اسےکھو دینا معراج عشق۔ ابتدائے عشق میں ہی بدہضمی کے ڈکار کی طرح محبوب کی یاد بار بار آتی ہے۔انتہائے عشق میں ساتھ مروڑ بھی اٹھتے ہیں۔کیفیت السر جیسی ہوجاتی ہے۔۔۔ انسان خود کو کھو دیتا ہے فنا فی المحبوب۔۔۔ بقول انور شعور

جمعرات، 5 فروری، 2015

میری محبوبہ ہی مس پاکستان ہے۔۔۔ !

حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں آفریں آفریں۔۔۔۔ آفریں، آفریں
یہ گانا جب بھی کسی بھونپو، ریکارڈ پلئیر یا ڈی وی ڈی پر بجتا ہے تو دل جانِ جاناں کے لئے زیادہ شدت سے تڑپتا ہے۔۔۔جانِ من کبھی کبھی تو رشک چمن ہوتی ہے اور کبھی گلاب جامن۔۔۔ دِکھنے میں بھدی اور چکھنے میں میٹھی
حسن جاناں کی تعریف کے لئے جتنی بھی مبالغہ آرائی کرلو۔۔ ۔تشنگی رہ جاتی ہے۔۔۔وہ حور جس کے جلوے سے آنکھیں خِیرہ ہوجائیں۔اس کا ذکر جب نثر میں نہ سمٹےتو شعر پھوٹتے ہیں۔۔۔ہم وزن،ہم پلہ،ردیف اور قافیہ میں گوندھا ہوا حسن۔۔۔شعر کہنے والا ہوتا تو عاشق ہے لیکن اسے کہتے شاعر ہیں۔۔۔شعر اس کے محبوبتی ذوق کا تذکیہ ہوتے ہیں۔۔۔محبوبہ کو صغیہ راز میں رکھنے والا عاشق۔۔۔شاعربن کر حسن جاناں کو شعروں کے ذریعے ہمارے حوالے کرتا ہے۔۔۔شعر ہم وزن ہوں تو پرائی محبوبہ کا حسن بھی پرکھا جا سکتا ہے۔۔۔حیرت ہے کہ لوگ حسن کو وزن میں ڈھونڈنے لگے ہیں۔