بدھ، 15 اگست، 2018

جہاز باہر کھڑا ہے۔ !

میں تقریبا تین دہائیوں سے موٹر سائیکل کا مسافرہوں۔ بالوں میں چاندی اترآئی اور موٹرسائیکل کا رنگ نکل آیا۔ لیکن یہ بکھیڑاحل نہیں ہواکہ موٹرسائیکل کی سی سی یا گاڑی کی ہارس پاورکیا بلا ہے۔؟۔البتہ دوستوں نے جب بھی موٹر سائیکل اوردشمنوں نے گاڑی خریدی۔میں نے یہ ضرور پوچھاکہ یہ کتنےسی سی ہے؟۔ایسے سوال پوچھنے میں کیا معرفت تھی۔ اورجواب جاننے میں کیاحکمت۔آج تک نہیں پتہ۔؟ شعور۔ابھی پورے طورپرٹمٹمایا بھی نہیں تھاکہ ہارس پاور کے ساتھ۔ہارس ٹریڈنگ کا بکھیڑا بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ٹُو بی اور ناٹ ٹُو۔بی کی طرز پر عجب خود کلامی جاری رہتی۔
ہارس پاور اور ہارس ٹریڈنگ کبھی کبھار تو ا یسے مکس ہوجاتےکہ ’’پاور ٹریڈنگ‘‘ نامی ایک نئی ٹرم بن جاتی۔شروع شروع میں توپاورٹریڈنگ کی تھوڑی بہت سمجھ آتی تھی۔الحمد للہ اب بلکل نہیں آتی۔ کیفیت۔ گجنی کے سنجےسنگھانیا جیسی رہی۔اچانک ’’چھانگا مانگا کی سیاست‘‘۔نامی ۔نئی آفت نےسر اٹھا لیا۔میں بچہ تھوڑا ہی تھا۔اتنا تو جانتا تھاکہ چھانگا مانگا ایک جنگل ہے۔اور گھوڑے جنگل میں ہی ہوتے ہیں۔مشکل یہ تھی کہ گھوڑوں کے ساتھ لوٹے بھی جوڑے جا رہے تھے۔کبھی پیندے والے اورکبھی بن پیندے۔لوٹے۔ جنگل اور گھوڑے۔یہ ایک بے جوڑسا۔جوڑ تھا۔میں نے اس پہیلی کو سمجھنے میں کئی سال لگائے بلکہ سالے بھی لگائے۔لیکن ککھ پلے نہیں پڑا ۔اُلٹا۔سالے ’’ایلیکٹ ایبلز‘‘ کا نیا قضیہ کھل گیا۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھاکہ اگر ایلیکٹ ایبلز کی اہمیت ہے تو ’’آزاد قبیلے والے‘‘ آنکھ کا تاراکیوں بن گئے۔میرا دوست شیخ مریدکہتا ہےکہ آزاد امیدوارپارلیمان کے بھوترےگھوڑے تھے۔جن پرکاٹھی ڈال لی گئی ہے۔جنہیں جہانگیر ترین نے ائیرکارگوسروس کے ذریعے بنی گالہ تک ٹرانسپورٹ کردیا ہے۔ 
جہازتو دور۔اوسط درجے کے گھروں میں گاڑیاں بھی نہیں ہوتیں۔وہ سکوٹرکو ہی گڈی کہتے ہیں۔اوسط درجے کے رشتے دار اوسطاً روٹھے ہی رہتے ہیں۔انہیں پتہ ہوتا ہے کہ شادی بیاہ پرجسے ضرورت ہوئی منالے گا اور منانے والے  آبھی جاتے ہیں۔خاندانوں میں سرد جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے اور۔روٹھنے والے شادی جیسےتہوار کو بطورہتھیار استعمال کرتے ہیں۔کون کس سے ناراض ہے؟ یہ رازعموماً تہواروں سے دوتین روزقبل کھلتا ہے۔جب خاندان کے بڑے اچانک سفارتکاری پرنکل جاتے ہیں۔روٹھا ہواشخص اکثرتایا۔ہوتا ہے۔یا ماما۔کبھی کبھار جمائی بھائی بھی’’محمودو ایاز‘‘ کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔شادیاں دیرینہ رنجشوں کے خاتمے اور اگلی لڑائی کی بنیاد کاسبب بنتی ہیں۔روٹھوں کو منانےکےدوران بار بار بتایا جاتا ہےکہ’’چلومان بھی جاؤگڈی پرلینے آئے ہیں‘‘۔اورپھر مان جانے کی اطلاع ملتے ہی تہوار میں یوں جان پڑ جاتی ہے۔جیسے جھنگ میں حضرت شاہ جیونہ کےمزارکاچراغ چڑھ جانے کے بعد عرس میں جان پڑتی ہے۔کہتے ہیں کہ چراغ نہ چڑھے توگدھی نشین کی موت ہو جاتی ہے۔ اورچراغ چڑھتے ہی میلے کے سارے طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ ڈھول بجنے لگتا ہے اورکھسرےٹھمکنے لگتے ہیں۔کھسرا ۔لاہور کا ہویا پشورکا۔اس کا نام عہد حاضرکی فلمی ہیروئن والا ہوتا ہے۔آج کل کھسروں کے نام دپیکا، قطرینہ، پریانکا،کرینہ،کنگنا اورسنی لیون ہیں۔ہر شہر کی اپنی اپنی دپیکا ہوتی ہے اورہرشہری کی اپنی اپنی کنگنا۔’’روٹھے شریک‘‘ آجائیں تولگتا ہے تہواروں پرکھسرے نہیں بلکہ بالی وڈسٹارٹھمک رہےہوں۔اورشریکوں کے لئے یہ بات۔ تاحیات قابل فخررہتی ہےکہ گڈی پر لینے نہ آتے توکبھی نہ جاتے۔
بلکل ایسے ہی پی ٹی آئی سے روٹھ کر آزاد الیکشن لڑنے اور جیتنے والےتمام ممبران اسمبلی کےگھروں کےباہرجہازکھڑا تھا۔روٹھوں کومنانے کےلئے۔ڈھول بجانےکےلئے۔اوران لمحوں کوتاحیات قابل فخربنانےکےلئے۔۔بنی گالہ میں چراغ چڑھنے کا انتظار ہو رہا تھا۔جہانگیر ترین نے ’’ککی چیلنج‘‘ خود قبول کیا تھا۔وہ ہر آزاد ممبر اسمبلی کے دروازے تک یوں پہنچے جیسےکیبل پہنتی ہے۔اپنے جہاز پر۔وہی جہاز جو ہمیشہ فضا میں ہوتا تھا۔زمین پر یوں کھجل ہو رہا تھا۔ جیسے ہمارے محلوں میں ’’جہاز‘‘کھجل ہوتے پھرتے ہیں۔مریدکہتا ہےکہ گھرکے باہر جہازکھڑا ہوتوگھروالے دروازے بندکر لیتے ہیں اورہوائی جہازکھڑا ہو تو سارا محلہ دیکھنے آتا ہے۔
جہاز امرا کی سواری ہے اورگھوڑا بادشاہوں کی۔جہاز چونکہ خلا میں اڑتا ہے اورخلاپر خلائی مخلوق کا قبضہ ہوتا ہے۔جہانگیر ترین کے جہازکو اڑنے کی اجازت حاصل تھی۔اسی جہازپر۔ن لیگ سے روٹھ کرجیتنے والے بھی۔کئی ممبران بنی گالہ پہنچے۔کیونکہ ٹائی ٹینک کی سواری کوئی نہیں بننا چاہتا۔ اورگھوڑا۔گھوڑا شطرنج کا ہویا جنگ کا۔اس کی چال سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔تمام گھوڑے چارچالیں چلتے ہیں۔پہلی چال میں ہرپاؤں الگ الگ زمین پرپڑتا ہے۔دوسری چال دُلکی ہوتی ہے۔ تیسری چال میں تین آوازیں آتی ہیں اورچوتھی سرپٹ ہوتی ہے جبکہ شطرنج کا گھوڑا اڑھائی چالیں چلتا ہے۔مریدکہتا ہے کہ شطرنج اورجنگ کے علاوہ گھوڑوں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے۔جوہوا پرسوارہوتی ہے۔ یہ گھوڑے ماضی میں چھانگا مانگا لینڈکرتے تھے اوراس باربنی گالہ اترےہیں کیونکہ حاکم کی اگاڑی سے بچناچاہیے۔
سیاست ایسا کھیل ہے۔ جو گدھے اور گھوڑے کی پہچان کرا کے چھوڑتا ہے۔ اگر سیاستدان گھوڑے نہ بنیں توان کی پارلیمانی حیثیت گدھوں کے برابر ہوتی ہے۔یہ بہت پرانی بات نہیں جب میاں نواز شریف نے امیر قطر کوگھوڑےکا تحفہ بھیجا۔ لیکن اس قطری نے ’’خط‘‘ بھی نہ بھیجا۔سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے یہی مہربانی ترک وزیراعظم طیب اردگان پرکی تھی۔یہ رازکسی کونہیں معلوم کہ ایک گھوڑا کتنے کا تھا لیکن اسے بھجوانے پر فی گھوڑا تقریبا 50لاکھ روپے لاگت آئی۔ آصف علی زرداری جب صدرمملکت تھے تب گھوڑےایوان صدرمیں ہوتے تھے۔ انہیں کھانے میں مربے اور بادام ملتے تھے۔ اس بارگھوڑوں کی آؤ بھگت بنی گالہ میں صرف ایک کپ چائے اور بیان حلفی پرہوئی۔انہیں بنی گالہ کےکھونٹےسےباندھ دیاگیا ہے۔سرپٹ دوڑتےسموں کی آوازیں اب نہیں آ رہی۔۔مریدکہتا ہے۔پاکستانی سیاست میں پاورٹریڈنگ سارا سال چلتی ہے۔بلکہ سینٹ کے الیکشن تو ہوتے ہی گھوڑی پال سکیم کے تحت ہیں۔گھوڑےبھی جانے پہچانے ہوتے ہیں۔۔اس لئے اسمبلی میں ایک مستقل اصطبل بن جانا چاہیے ۔تاکہ خریداروں کو بیرونی منڈی میں نہ جانا پڑے۔مرید خاصا سمجھ دار لگ رہا تھا۔میں نے اسے تین دہایاں پرانا سوال بھی پوچھ لیا۔کہ یہ ہارس پاورکتنی ہوتی ہے۔؟
بولا:جھنڈے والی گاڑی۔دو تین بڑے ٹھیکے اورنوٹوں کے چار پانچ کھوکھے۔

1 تبصرہ:

  1. سوال: یہ ہارس پاورکتنی ہوتی ہے۔؟
    جواب :جھنڈے والی گاڑی۔دو تین بڑے ٹھیکے اورنوٹوں کے چار پانچ کھوکھے۔

    طبیعت کو شگفتہ کرنے کیلیئے مزاح تو لاجواب تھا ہی، مگر یہ والے فقرے حاصل تحریر رہے۔
    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں