ہفتہ، 23 اپریل، 2016

شہزادےجھوٹےہیں۔ ۔؟

پیارے بچو۔!
ایک بادشاہ تھا۔وسیع و عریض سلطنت کا مالک۔خزانوں سے بھری ہوئی سلطنت۔لیکن سارے خزانےمدفن تھے۔’’زندہ‘‘ خزانے  حواری کھاپی چکےتھے۔ بادشاہ۔تیسری۔رسم تخت پوشی سےقبل مدفن خزانوں کونکالنے کی باتیں  اکثرکرتا تھا۔تخت طاؤس پربیٹھتے ہی۔سب کچھ بھول گیا۔خزانہ یوں دفن  رہ گیا  تھا گویا تجہیز وتکفین کرکےدبایا گیا ہو۔بادشاہ کی یاداشت ’’گجنی‘‘فلم  کےہیروعامرخان کی طرح شارٹ ہوگئی تھی۔اس کےپاس ایک کیمرہ تھا۔جو۔نو۔رتنوں کی تصویریں کھینچ کربند ہو گیا تھا۔دربار میں کوئی اورداخل نہ ہوسکتا تھا۔زنجیر عدل ٹوٹ چکی تھی۔قانون گھرکی لونڈی تھا۔انصاف وہاں کی   مہنگی ترین جنس تھی۔خزانہ طوائف کی طرح مسلسل  اُجڑ۔رہا  تھا۔گِدھ آج بھی لاشےپر اڈاریاں مار ۔رہے تھے۔ راجہ  ٹوڈر مل کی بصیرت خزانہ۔جواب دے چکی تھی۔
بادشاہ کے سر پراقتدار کا ہما تیسری بارآ بیٹھا تھا۔جی جی کرنے والے درباریوں  کی تعدادبھی اچھی خاصی تھی۔باادب۔باملاحظہ ۔ہوشیار پکارنے  والے۔رتن بھی کافی تھے۔اوردین اکبری  ایجاد کرنے والے۔ابو الفضل بھی کافی۔  خربوزوں کی راکھی گیدڑ بیٹھے تھے۔شجریہ سایہ دار کو کاٹ کاٹ کرکھایا جا رہا تھا۔  ریاستی  ہمسائے  پورے پھنئیر سانپ تھے ۔ زہر افشانی کرنے والے۔بادشاہ پر بھی آستین میں سنپولئے پالنے کا الزام تھا۔ اندر اور باہر سے مسلسل شورش برپاتھی ۔خزانہ ٹکے ٹوکری ہو چکا تھا۔جنگ و جدل کے لئے جھولی پھیری جا رہی تھی۔

بچے:استاد جی  ۔رعایا کے حالات کیسےتھے۔؟
استاد:ایک آدمی  کسی پارک سے گزرا توایک شخص الٹا لیٹا گانا گارہا ہے۔’’جدا ہو کےبھی تومجھ میں ابھی باقی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعدآدمی لوٹا تو وہی شخص سیدھا لیٹ کرگار ہا تھا۔’’تڑپ تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی۔‘‘
آدمی : پہلےالٹے لیٹے کرکچھ اورگانا گا رہے تھے۔اب سیدھے  لیٹ کرنیا گانا۔کیوں۔؟۔جواب ملا’’یہ ریکارڈ ہےکی دوسری سائیڈہےبھئی‘‘
استادجی بولے۔سلطنت میں رعایا کی ہرسائیڈ بج رہی تھی۔یہ بھوکوں کی سلطنت تھی۔ نیچے والوں کی نسبت اوپر والے زیادہ بھوکھےتھے۔بڑے دہنوں والے۔رعایا کا خون چوس چوس کرساری جونکوں کے دہن تازے تھے۔ یہی  خون سستا ترین تھا۔ جب  سرمایہ دارکا جی چاہتا۔ بلڈ ٹرانسپلانٹ کروا لیتا۔وہاں جنس۔پراپرٹی کی طرح  بکتی تھی۔انار کلیاں۔آزادتھیں۔رشوت، سفارش اوراقربا پروری کا بازارگرم  تھا۔مالی اورمادی  ضابطے توڑنا  عام تھا۔کرپشن آکاس بیل کی طرح ریاست کوگودلےچکی تھی ۔گولے کی کُل175ریاستوں میں اُس سلطنت  کا کرپشن میں نمبر127واں تھا۔ وہاں اخواص کے خزانے ہمارے گڑوں کی  طرح ابل رہےتھے۔نو رتن بڑھ کرنوسوہوچکےتھے۔لٹیروں کا  شعار’’نرم دم گفتگو گرم دم جستجو‘‘والا تھا۔بادشاہت۔ آمریت جیسی تھی۔وہاں تان سین کا اقبال سب سے بلندتھا۔گانےوالےبھی عام تھے بجانے والے بھی۔ناچنے والیوں کےاللے اٹھائے جاتے تھے۔ابو  الفضل   جیسےعلما نےقوم کودین کےبجائے اپنے پیچھے لگا رکھا تھا۔
طالبعلم :استادجی۔عالم کی۔کوئی مثال تودیں۔؟
استاد :محبت کی شادی کرنے کی  خواہش مند ایک لڑکی نےمولوی  سےپوچھا اگرمیں  کسی رشتہ دارسےپیارکروں تو  مجھےآخرت میں   کیاملے گا  ؟ وہ بولے دوزخ ۔
لڑکی: اور اگرمیں  کسی غیرمردسےپیارکروں تو؟
مولوی صاحب :استغفراللہ ۔یقیناً دوزخ۔
 لڑکی بولی:اوراگرمیں آپ سے پیاررر۔۔ ؟مولوی  نےداڑھی پر ہاتھ پھیرکرکہا:چالاکو۔۔سیدھا جنت  جانا چاہتی ہو۔
وہاں رعایا اورعلما کےجنت جانےکےمیرٹ الگ الگ تھے۔ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بھی جگہ جگہ بنی تھی۔چوری پر ہاتھ کاٹنے کا
نظام وہاں کیسےآتا۔بادشاہ کےدو بیٹے  تھے۔دونوں شہزادوں کوصرف  ایک ہی سبق  آتا تھاکہ’’اتفاق‘‘ میں برکت ہے۔انار کلیوں سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ہیرے جواہرات میں کھیلتے تھے۔ان  کا۔کاروبارپتہ نہیں کیاتھالیکن  چمکتا خوب تھا۔سلطنت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔شہزادے دربارتو کیا سلطنت میں بھی  بہت کم آتے تھے۔بادشاہ  کہتا تھا میری دولت   کئی بارلوٹی گئی۔لیکن خزانہ   تھا کہ  آب زم زم کا کنوئیں۔کبھی  خشک نہ ہوا۔ اچانک شہزادوں پر خزانہ لوٹنے کا الزام لگ گیا۔رعایا انہیں جھوٹا کہنے لگی۔ شہزادےجھوٹ کو سچ بنانے میں مصروف ہو گئے۔پھر۔؟  شاگردنے پوچھا۔
استاد جی:ایک  بچہ اول درجے کا جھوٹا تھا۔اس جھوٹے کا سب کو پتہ تھا۔ایک دن باپ بولا۔۔بیٹے۔۔اگرتم فورا کوئی جھوٹ بولو تو میں سو روپے دوںگا۔
بیٹابولا:ابا۔۔صبح تو دو سو کہا تھا ۔
جھوٹ کےپیرنہیں ہوتے۔بچو۔!۔یہ ریاست جھوٹوں پرقائم تھی۔بادشاہ  اپنی چالاکی سےدو سال  پہلےایک مزاحمت  کچل چکا تھا ۔ریاست میں دوسری بارشورش اٹھی  تھی۔سپاہ سالاراپنی سپاہ کے ساتھ داخلی محاذوں پر مصروف تھا۔راج دھانیاں اپنا اپنا چورن بیچنے لگی تھیں۔ایلچی۔سات سمندرپارسے۔شہزادوں کے نامہ اعمال بھجوا  رہے تھے۔غیر قانونی کمائیوں کا  بھانڈا پھوٹ چکا تھا۔جھوٹ افشا ہونے پرنورتن سر جوڑے بیٹھے تھے۔اس باربادشاہ کوایک اوردریا کاسامنا تھا۔دل قومی خزانے کی طرح مسلسل گھٹنے لگا تھا۔بیر بل اور ملا دوپیازہ لطیفے سناسناکر تھک چکے تھے۔لیکن مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی۔چین اک پل کا نہ تھا۔شاہی طبیب حاضرکیا گیا۔اس نےٹٹول کر بتایا کہ  جگرچھلنی ہے۔دل  لہو لہو ہے۔وزیرباتدبیرنے بتایا کہ ریاست میں اچھے معالج نہیں ہیں اورراجہ ٹوڈرمل نےسمندرپارعلاج کا  مشورہ دے کرامان پائی۔وہاں  پہلےبھی کئی بیمار بیٹھے تھے۔وہاں رعایا کا علاج کیسے  ہوتا تھا۔؟ شاگردنے پوچھا۔
استاد:کیمسٹ کی دکان میں ایک  ہکلا آدمی گیااورپوچھا ہچکیاں روکنے کی کوئی دواہے۔؟
کیمسٹ  کاونٹرکےپیچھےسےآیا اورہکلے کے کانوں پر ٹکا کر دی۔گردن پر زور سے مکا مارا
آدمی(غصےسے):اوئے۔مجھ کیوں مارا۔؟
کیمسٹ:ہچکی کی کوئی دوا نہیں ہوتی اس کا ٹوٹکا ہوتاہے۔آپ سنائیں آفاقہ ہوا یا نہیں۔
آدمی :ہکلاتے ہوئے۔ ہچکی مجھے نہیں میری بیوی کولگی ہے۔
استاد جی بولے:قوم کاعلاج اندازوں۔ٹوٹکوں سےہورہا تھا۔رعایا کی زندگی جانوروں جیسی تھی۔وہاں جنگل کا قانون تھا۔ریاست اور  جنگل۔ہرجگہ پرشیرکا راج تھا۔شیرگوشت چھوڑکر۔آٹا۔چینی۔ گھی حتی کہ خزانہ  کھانے لگا تھا۔اچانک ایک سرپھرا۔دیوانہ  جنگل میں آگیا۔وہ شیرکےسامنے تنہا کھڑا تھا۔اُس نے شور مچایا  تو شیرکانپ  گیا۔شورسن کر کئی اورپاگل  بھی جمع ہونےلگے۔نورتن۔اُس دیوانےپرافیمی اورکئی غیراخلاقی الزام لگاتے تھے۔لیکن رعایادیوانےکےساتھ ملتی گئی اورقافلہ بنتا گیا۔ریاست اور خزانہ بچانےکی آوازمیں شدت آچکی تھی۔مجبورا۔بادشاہ۔اپنی۔اورشہزادوں کی انکوائری منصف اعلی سےکرانےپر مان گیا۔  
شاگرد:استاد جی پھرکیا بنا۔؟
استاد:ایک  مالکن نےاپنی ملازمہ کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہوکراسےنکال دیا۔اورملازمہ کی دلجوئی کے لئے الوداعی جملے بولی۔
مالکن :مجھےپتہ ہے کہ  صاحب کو تمہارے ہاتھ کا کھانا بہت پسندہے۔سوچتی ہوں ان کی پسندیدہ ڈشیں اب کون بنائے گا ۔؟
ملازمہ :بیگم صاحبہ آپ بلکل پریشان نہ ہوں۔ کیونکہ صاحب بھی میرے ساتھ ہی جا رہے ہیں۔
شاگرد:استاد جی۔ لطیفے کا ریاست سےتعلق سمجھ نہیں آیا۔؟
استاد:آج کی کلاس برخاست۔آپ بس اتنایادرکھیں۔دیوانےکےساتھ ابھی رعایا کی تعدادکم ہے۔!

4 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ,
    ملکی حالات پر نہیں کہا آپ کی تحریر پر کہا ہے
    اس دفعہ دیر سے آئی آپ کی تحریر

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ شاہد صاحب۔۔۔۔ آپ کا ۔۔۔۔ میں ہفتے میں صرف ایک بار ہی لکھتا ہوں۔۔ یہ تسلسل جاری ہے۔۔۔ شائد آپ کی نظر سے پچھلے ہفتے کی تحریر نہیں گذری :)

      حذف کریں